ان خیالات کا اظہار "حسین امیر عبداللہیان" نے آج بروز بدھ کے ایران کے دورے پر آئی ہوئی آئرش کی خاتون وزیر خارجہ "سایمونی کاوونی" سے ایک ملاقات کے بعد، ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ تہران میں آئرلینڈ کا سفارت خانہ کا دوبارہ جلد کھول جائے گا؛ ساتھ یورپی ممالک کے درمیان آئرلینڈ کیساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان تبادلے کے تعلقات کا حجم پہلے بھی نمایاں رہا ہے، اور ہم نئی حکومت میں اس طرز عمل کا اپنانے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم عوامی حکومت کی متوازن خارجہ پالیسی اور ڈاکٹر رئیسی کی تبدیلی کو دیکھ کر، خاص طور پر نئی تبدیلیوں کی روشنی میں تعاون پر مبنی نظریہ رکھنے والے ممالک جیسے آئرلینڈ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی امید کرتے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ میں اور میری آئرش ہم منصب اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم، خاص طور پر گزشتہ دو سالوں میں، تسلی بخش نہیں ہے، اوریہ اس وقت ہے جب کہ دونوں ممالک میں بہت متنوع صلاحیتیں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم نے متعدد امور خاص طور پر زراعت اور خوراک، آبی وسائل کے انتظام، انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، طبی اور دواسازی کی صنعتوں، نینو ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں تعاون کو ترجیح دینے پر اتفاق کیا؛ یقیناً اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تعاون کے دیگر شعبوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔
انہوں نے دونوں ممالک کے پارلیمانی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اور مجھے اس بات خوشی ہی کہ حالیہ مہینوں سمیت حالیہ برسوں میں، دونوں ممالک کی پارلیمانی سفارت کاری کو ضروری طاقت حاصل ہوئی ہے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آئرلینڈ کی غیرمستقل رکنیت کی حمایت کرتا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے عالمی امن، استحکام اور سلامتی میں اپنا حصہ ڈالنے کے اپنے ملک کے منصوبے کو اہم سمجھتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ایران کے ارد گرد کے علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف یورپ، خاص طور پر آئرلینڈ کی توجہ سے آگاہ ہیں؛ افغانستان، خطے اور عالمی سطح پر ہماری توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران، افغانستان میں تمام سیاسی اور نسلی گروہوں کی شرکت سے ایک جامع حکومت کے قیام کی بدستور حمایت کرتا ہے؛ افغانستان کے لیے ایران کی انسانی امداد کے علاوہ، ہم زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے افغانستان کو بین الاقوامی امداد کی ترسیل میں سہولت فراہم کریں گے اور ہم یہ اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔
*** مغرب کو شاک پر مبنی رویہ اپنانے کے بجائے جوہری معاہدے کے تحت اپنا اصل کردار ادا کرنا ہوگا
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر امریکہ اور تین یورپی ممالک جوہری معاہدے سے متعلق اپنے کیے گئے وعدوں پر پورا اترنے کیلئے سنجیدہ ہوں، تو ایک مختصر عرصے میں ایک اچھی ڈیل دستاب ہے۔
امیر عبدالہیان نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مضبوط مذاکراتی منطق کے ساتھ اپنی موجودگی اور کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور ہمارا مقصد 2015 میں جوہری معاہدے سے متعلق پابندیوں کو مکمل طور پر ہٹانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکیوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نام اپنے پیغامات میں ملکوں اور ثالثوں کے ذریعے خیر سگالی کی بات کی ہے کہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے خیر سگالی کی بات کی گئی ہے لیکن اب تک کوئی ایسا ٹھوس واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا جو امریکیوں کے خیر سگالی کے دعوے کا عملی ترجمہ ہو۔
*** مغربی دہمکی مذاکرات کے اختتامی نقطہ کا تعین نہیں کرے گا
ایرانی وزیر خارجہ نے ویانا مذاکرات کے اختتام کے وقت سے متعلق کہا کہ دوسری طرف سے دھمکیاں اور انتباہات مذاکرات کے اختتامی نقطہ کا تعین نہیں کریں گے؛ بلکہ مذاکرات کی میز کے حقائق، مغربی اور امریکی فریقین کی جانب سے اپنے وعدوں پر واپس آنے کی سنجیدگی اور مستعدی، اس بات کا تعین کرے گی کہ مذاکرات کب ختم ہوں گے یا کوئی اچھا معاہدہ ہوگا۔
امیرعبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری سرگرمی، بالکل پُر امن ہے۔
*** اگلے عیسوی سال میں ایران میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولیں گے
دراین اثنا آئرش کی خاتون وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے سب کو جوہری معاہدے میں واپس آنے کی ترغیب دی۔ ہم نے گزشتہ سال ایران کے ساتھ باقاعدہ رابطے کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ایران امریکی حکومت کے سابقہ فیصلوں سے ناراض ہے۔ ایران نے جوہری میدان میں قدم اٹھایا ہےاور آئرلینڈ جوہری تخفیف اسلحہ کا خواہاں ہے۔
کاوونی نے کہا کہ جوہری معاہدے کی بحالی ایرانی عوام کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔ ویانا میں ہونے والا معاہدہ مزید علاقائی تعاون کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ آئرلینڈ تمام فریقین کی مذاکرات کو آگے بڑھانے اور انہیں نتیجہ خیز بنانے میں مدد کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ بعض معاملات پر دو طرفہ سطح پر تعاون اور بات چیت میں اضافہ ہونا ہوگا۔ پچھلے 12 مہینوں میں ہمارے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوئے ہیں۔ ہم اگلے عیسوی سال تہران میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ